اس کا جواب تو یقینًا نفی ہے، تو پھر یہ سوال صدیوں بعد آج کیوں پیدا ہوا؟ دراصل ایسے تمام عوامل کے پیچھے یہ خام خیالی (مغرب میں تو مکمل طور پر اور مشرق میں بھی کسی حد تک) کارفرما ہےکہ عورت اور مرد چونکہ ( ہر لحاظ سے) برابر ہیں، لہذا زندگی کی عملی جدوجہد میں ان کی شمولیئت نہ صرف تمام میدانوں میں بلکہ خالصتًا برابریکی بنیاد پر ہونا دونوں کا بنیادی حق ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہرتا ہے کہ١- پھر حمل اور تولد کی ذمہ داری صرف عورت ہی کی کیوں؟ یہاں مرد برابر کا شریک کیوں نہیں؟ ( ظاہر ہے یہ فطرتًا ناممکن ہے، تو پھر کیوں نہ عورت کو اس اضافی ذمہ داری کے بدلے میں کہیں اور چھوٹ دی جائے۔ اور اسلام نے یہی کیا ہے کہ عورت پر حصول معاش کا بوجھ نہیں ڈالا ( سوائے انتہائی مجبوری کی حالت میں )۔ جس سےدو فائدے ہوے
١- ابتدائی عمر میں بچوں کی پرورش مکمل توجہ اور یکسوئی سے ہونے لگی۔٢- ساتھ ہی ایک بھرپور خاندانی نظام، اپنے تمام تر دور رس نتائج کے ساتھ ایک بنیادی معاشرتی اکائی کی صورت میں مستحکم ہو گیا۔
اسی خاندانی نظام کی گمشدگی کا خمیازہ آج مغرب بھگت رہا ھے، اور کسی قدر اس کا احساس بھی بعض حلقوں میں محسوس کیا جانے لگا ہے۔
اللہ ہمیں اپنی دینی اور معاشرتی اقدار کی صحیح سمجھ عطا فرمئے۔ آمین