Mar 26, 2005

کیا عورت کی امامت (مردوں کے لئے) جائز ہے؟

اس کا جواب تو یقینًا نفی ہے، تو پھر یہ سوال صدیوں بعد آج کیوں پیدا ہوا؟ دراصل ایسے تمام عوامل کے پیچھے یہ خام خیالی (مغرب میں تو مکمل طور پر اور مشرق میں بھی کسی حد تک) کارفرما ہےکہ عورت اور مرد چونکہ ( ہر لحاظ سے) برابر ہیں، لہذا زندگی کی عملی جدوجہد میں ان کی شمولیئت نہ صرف تمام میدانوں میں بلکہ خالصتًا برابریکی بنیاد پر ہونا دونوں کا بنیادی حق ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہرتا ہے کہ١- پھر حمل اور تولد کی ذمہ داری صرف عورت ہی کی کیوں؟ یہاں مرد برابر کا شریک کیوں نہیں؟ ( ظاہر ہے یہ فطرتًا ناممکن ہے، تو پھر کیوں نہ عورت کو اس اضافی ذمہ داری کے بدلے میں کہیں اور چھوٹ دی جائے۔ اور اسلام نے یہی کیا ہے کہ عورت پر حصول معاش کا بوجھ نہیں ڈالا ( سوائے انتہائی مجبوری کی حالت میں )۔ جس سےدو فائدے ہوے
١- ابتدائی عمر میں بچوں کی پرورش مکمل توجہ اور یکسوئی سے ہونے لگی۔٢- ساتھ ہی ایک بھرپور خاندانی نظام، اپنے تمام تر دور رس نتائج کے ساتھ ایک بنیادی معاشرتی اکائی کی صورت میں مستحکم ہو گیا۔
اسی خاندانی نظام کی گمشدگی کا خمیازہ آج مغرب بھگت رہا ھے، اور کسی قدر اس کا احساس بھی بعض حلقوں میں محسوس کیا جانے لگا ہے۔
اللہ ہمیں اپنی دینی اور معاشرتی اقدار کی صحیح سمجھ عطا فرمئے۔ آمین

5 comments:

Anonymous said...

دورِ حاضر کے ممتاز عالمِ دین پروفیسر ڈاکٹر حمیداللہ جنہوں نے پہلی مرتبہ قرآن کا فرانسیسی زبان میں ترجمہ کیا اپنی کتاب خطباتِ بہاولپور میں (صفحہ تیس، نواں ایڈیشن، مطبوعہ دو ہزار تین، طابع ادارہِ تحقیقاتِ اسلامی، اسلام آباد) سنن ابنِ داؤد اور امام احمد ابنِ حنبل سے اقتباس کرتے ہیں کہ رسول نے ایک انصاری خاتون امِّ ورقہ کو ان کے اپنے محلے کی مسجد کا امام مقرر کیا اور ان کو ایک مرد مؤذن مقرر کر کے دیا جہاں دیگر مرد حضرات ان کے پیچھے نماز پڑھتے تھے۔ امِ ورقہ امامت کے فرائص نہ صرف پہلے خلیفہ ابوبکر کے دور تک ادا کرتی رہیں بلکہ یہ سلسلہ دوسرے خلیفہ عمر فاروق کے دور میں ان کے انتقال پر ہی ختم ہوا۔

اشفاق احمد said...

ہو سکتا ہے یہ درست ہو، اور ظاہر ہے نہ صرف آج کے بلکہ پچھلے ١٤٠٠ برس کے بیشتر علماء بھی یقینًا اس حدیث سے واقف ہونگے لیکن کسی نے بھی اس حدیث کی بنیاد پر عورت کی امامت کو جائز قرار نہیں دیا ہے ، خاص طور پر مردوں کی امامت۔ کیا آپ بتاسکتے ہیں کہ ڈاکٹر حمیداللہ ہی نے یہ واقعہ بیان کرنے کہ بعد اسے جائز قرار دیا؟ (اگرچہ ڈاکٹر صاحب کی فقہی حیثیت کا مجھے علم نہیں ہے)

Jahanzaib said...

اسلام و عليکم
آپ نے جن صحابيہ کا ذکر کيا ہے ان کو محلے کی جماعت کروانے کی نہيں ان کے اپنے گھر والوں کی امامت کروانے کی اجازت لی تھی کيونکہ گھر ميں جو مرد تھے وہ ضعيف تھے اور امامت سہی طور پر نہيں کروا سکتے تھے۔

اشفاق احمد said...

جزاک اللہ الخیر۔ جہانزیب بھائی، جی یقینًا ایسا ہی ہوا ہو گا۔ ورنہ علماء اور ائماء حضرات کبھی اس کو نا جائز قرار نہ دیتے۔
اور بعد میں خود حضرت عمرؓ کے دور میں خواتین کی جماعت میں شرکت ہی ممنوع قرار دے دی گئ۔

اشفاق احمد said...

امریکہ ہی میں مسلمانوں کی ایک تنظیم (مجمع فقہاءالشریعہ الامریکیہ) نے اس مسٔلے کا مفصل اور تحقیقی جواب دیا ہے۔
ملاحظہ فرمائیں
http://www.amjaonline.org/english/headline.asp?Headid=58